کشمیر کا مسئلہ — جناب جاوید احمد غامدی کا موقف - سید منظور الحسن

کشمیر کا مسئلہ — جناب جاوید احمد غامدی کا موقف

 [’’دنیا‘‘ ٹی وی کے پروگرام ’’ علم و حکمت — غامدی کے ساتھ‘‘ میں جناب جاوید احمد غامدی کی گفتگو سے ماخوذ]
کشمیر کے مسئلے میں صحیح لائحۂ اختیار کرنے کے لیے اُس تبدیلی کو سمجھنا ضروری ہے جودنیا کے سیاسی فکر میں رونما ہو چکی ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک یہ تصور تھا کہ سیاسی نظم بزور طاقت وجود میں آتا ہے اور حاکم اور محکوم کے تعلق کی صورت میں کارفرما ہوتا ہے۔ ریاستیں اور حکومتیں اِسی اصول پر قائم ہوتی ہیں اور اپنے دوام اور استحکام کے لیے اِسی کو بروے کار لاتی ہیں۔ یعنی لوگ اٹھتے ہیں، طاقت جمع کرتے ہیں اور تلوار یا بندوق کے زور پر دوسروں کو اپنا محکوم بنا لیتے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی سلطنتیں اِسی تصور کے تحت وجود میں آتی رہی ہیں،یورپی حکومتیں اِسی طرز پر قائم ہوئی ہیں، مسلمانوں نے بھی بہت سے علاقوں پر اِسی طریقے سے حکومت کی ہے اور ہندوستان میں مغلوں اور انگریزوں کی حکومتیں بھی اِسی اصول کا نتیجہ ہیں۔
 یہ تصور اب تبدیل ہو گیا ہے ۔اِس کی جگہ حق خودارادی اور جمہوریت کے تصورات نے لے لی ہے۔ یہ دو باتیں بطور اصول تسلیم کر لی گئی ہیں کہ قوموں کو حق خود ارادی حاصل ہے اورسیاسی نزاعات کا فیصلہ جمہوری طریقے سے ہو گا۔ حق خود ارادی کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی خطۂ ارض کے لوگ زبان، نسل،علاقے، ثقافت، مذہب یا کسی اور اشتراک کی بنا پراپنے منفرد قومی تشخص کا مطالبہ کریں تو اُنھیں ایک قوم کے طور پر قبول کیا جائے گا۔ یہ تسلیم کیا جائے گا کہ وہ اپنے سیاسی فیصلوں میں خود مختار ہیں۔ چنانچہ اگر وہ چاہیں گے تو اپنی ریاست سے علیحدگی اختیار کر سکیں گے، کسی دوسری ریاست سے الحاق کر سکیں گے یا اپنی الگ ریاست قائم کر سکیں گے۔ جمہوری طریقے سے مراد یہ ہے کہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے تمام سیاسی معاملات لوگوں کی راے سے طے ہوں گے۔
 اِن اصولوں کو اب عالمی مسلمات کی حیثیت حاصل ہے۔ عملی طور پر اگرچہ بہت پیش رفت نہیں ہوئی ، لیکن فکری لحاظ سے یہ بات مان لی گئی ہے کہ حاکم اور محکوم کا تعلق ختم ہو چکا ہے۔ اب جو حکومتیں قائم ہوں گی، وہ جمہوری اصول پر چلیں گی اور اگر کسی جگہ کوئی قوم حق خودارادی کا مطالبہ کرے گی تو استصواب راے کے ذریعے سے اُس کے منشاکو نافذ کر دیا جائے گا۔
 اِس تناظر میں جب ہم کشمیر کے مسئلے کو دیکھتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ اب اِس مسئلے کو تقسیم ہند کے تاریخی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اِس کو اُس تبدیلی کی روشنی میں دیکھنا چاہیے جو اِس وقت دنیا میں آ چکی ہے۔ اب فیصلے کی بنیاد تاریخی شہادت نہیں، بلکہ یہ سوال ہے کہ کیا اہل کشمیر خود کو ایک قوم سمجھتے ہیں اور کیا وہ اِس حیثیت سے اپنا حق خود ارادی استعمال کرنا چاہتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب اگر اثبات میں ہے تو پھر اُن کا یہ حق ہے کہ اُنھیں جمہوری طریقے سے اپنا سیاسی فیصلہ خودکرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
 کشمیریوں کی ستر سالہ جدوجہد اور بے پناہ قربانیوں کے بعد اب اِس معاملے میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اُن کی ایک بہت بڑی اکثریت ہندوستان کے ساتھ نہیں رہناچاہتی۔ گذشتہ سات عشروں میں اُنھوں نے دنیا کو یہ بتایا ہے کہ وہ الحاق کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لہٰذا اب یہ بحث بالکل بے معنی ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ الحاق کا مجاز تھا یا نہیں تھا، الحاق کی دستاویز صحیح تھی یا غلط تھی، انگریز حکمرانوں کا کردار جانب دارانہ تھا یا غیر جانب دارانہ تھا۔ یہ سب باتیں غیر متعلق ہیں، کیونکہ بالفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ الحاق کے معاملات ویسے ہی تھے جیسے کہ بھارت کا دعویٰ ہے تو اِس کے نتیجے میں کشمیریوں کا حق خود ارادی سلب نہیں کیا جا سکتا۔ جب ایک قوم ستر سال سے علیحدگی کا مطالبہ کر رہی ہے تو پھر اِس کے بعد نہ کسی تاریخی استدلال کی گنجایش باقی رہتی ہے اور نہ کسی دستاویزی شہادت کی۔ حق خودارادی اُن کا پیدایشی حق ہے اور اِس کے لیے اُن کی جدوجہد ایک مشہود حقیقت بن چکی ہے۔ جب صورت حال یہ ہے تو دنیا کے ضمیر کو بھی بیدار ہونا چاہیے، بھارت کے ضمیر کو بھی جاگنا چاہیے اور پاکستان کو بھی اپنے ضمیر کی آواز بلند کرنی چاہیے۔ 
 دنیا کو اِسے دو ملکوں، یعنی بھارت اور پاکستان کے باہمی تنازعے کی حیثیت سے نہیں ، بلکہ ایک عالمی مسئلے کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔یہ ماننا چاہیے کہ حق خود ارادی کشمیریوں کا بنیادی حق ہے۔ یہ وہ حق ہے جو انسانوں کو اُن کی پیدایش کے ساتھ ہی حاصل ہو جاتا ہے۔ اِس حق کو اب انسانیت کے اجتماعی ضمیر نے تسلیم کر لیا ہے۔ اِس کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے اور اگر کوئی خلاف ورزی کر رہا ہے تو اُس کے خلاف ہر سطح پر آواز اٹھانی چاہیے۔ اقوام عالم کو اِس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ حق خود ارادی کے معاملے میں عالمی ضمیر دو اقدار کے باہمی تصادم کا شکار ہے۔ ایک جانب وہ قوموں کے حق خود ارادی کا علم بردار ہے اور دوسری جانب اُن کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کو تسلیم کرتا ہے ۔یہ دونوں اقدار باہم متضاد ہیں۔ اِنھیں بیک وقت قبول کرنے سے فکری تضاد جنم لیتا ہے اور حق خود ارادی کی پرزور حمایت ممکن نہیں رہتی۔ چنانچہ اِس امر کی ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ ایسا طریقۂ کار وضع کرے کہ جس کے نتیجے میں نہ کسی قوم کو اپنا حق مانگنے میں کوئی رکاوٹ پیش آئے اور نہ اقوام عالم کو اُس کی حمایت میں کوئی تردد لاحق ہو۔ یعنی اگر قومیت کے معیار پر پوری اترنے والی کوئی قوم کسی ملک سے علیحدگی، کسی ملک سے الحاق یا اپنی آزادی و خود مختاری کا تقاضا کرے تو اُسے روبہ عمل کرنے کے لیے باقاعدہ نظام موجود ہو ۔ مطالبے سے لے کر استصواب تک اور استصواب سے لے کر نتائج کے نفاذ تک ایک معلوم اور متعین لائحۂ عمل ہو۔ مثال کے طور پر امریکا کے قانون میں یہ طے کر لیا گیا ہے کہ اگر کسی ریاست کے لوگوں کی معین تعداد وفاق سے علیحدگی کا مطالبہ کرے گی تو ایک مخصوص طریقۂ کار کے مطابق استصواب راے کے ذریعے سے اِس کا فیصلہ کر لیا جائے گا۔
 بھارت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ حاکم اور محکوم کا دور نہیں ہے۔اب کسی قوم کے حق خودارادی کو تسلیم نہ کرنا قابل فخر نہیں، قابل مذمت ہے۔ وہ زمانہ بدل گیا ہے جب ایک قوم کے دوسری قوم کو محکوم بنا لینے کو بڑا کمال سمجھا جا تا تھا۔ کشمیریوں کی ستر سالہ جدوجہد کو دنیا کی نظروں سے اوجھل نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اُس کا دنیا کو یہ تاثر دینا محض خود فریبی ہے کہ یہ کشمیریوں کی قومی جدوجہد نہیں ، بلکہ اِس کا دائرہ چند مخصوص گروہوں تک محدود ہے۔ اگریہ بات درست ہے تو پچاس لاکھ کی آبادی کے ایک ملک میں سات لاکھ فوج رکھنے کے کیا معنی ہیں۔ اُسے سمجھنا چاہیے کہ اِس دور میں بندوقیں چلا کر،گولیاں برسا کر، سینوں پر سنگینیں رکھ کے، لوگوں کی بینائی ختم کر کے زیادہ دیر تک حکومتیں نہیں چلائی جا سکتیں۔ اگر لوگوں کی راے کی بنیاد پر کانگریس اور بی جے پی کو حکومت دینا درست ہے تو کشمیریوں کا معاملہ اُن کی راے سے طے کرنا کیسے غلط ہے۔ بھارت کے ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، عالموں اور پنڈتوں کے ضمیر کو بھی بیدار ہونا چاہیے۔ اُنھیں اپنے حکمرانوں کی غلط روش کی پیروی کرنے کے بجاے اُن کو بتانا چاہیے کہ اٹوٹ انگ کا زمانہ اب گزر گیا ہے۔ اب حق خودارادی اور جمہوریت کا دور ہے۔ اُنھیں سمجھانا چاہیے کہ اگرپاکستان کا ہندوستان سے الگ ہوناجائز ہے اور بنگلہ دیش کا پاکستان سے الگ ہونا ایک حقیقت ہے تو کشمیریوں کا مطالبہ بھی بالکل بجا ہے۔ طاقت کا استعمال اِس طرح کے مسئلے کا حل نہیں ہے، اِس کے نتیجے میں دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ لہٰذا مسئلے کو طاقت سے حل کرنے کے بجاے جمہوری طریقوں سے حل کرنا چاہیے اور جو بھی نتیجہ نکلے اُسے خلوص نیت سے قبول کرنا چاہیے۔
 پاکستان کو بھی حق خود ارادی کو بطور اصول اختیار کرنا چاہیے ۔ یہ اصول جس طرح ہندوستان کے لیے ہے، اُسی طرح پاکستان کے لیے بھی ہے۔ لہٰذا اُس کے اندربھی اگر کوئی قوم قومیت کے اجزا پورے کرنے کے بعد اِس طرح کا مطالبہ کرتی ہے تو اُسے بھی خوش دلی سے استصواب کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ کشمیر کے معاملے میں اُس کا یہی موقف ہونا چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے کو کشمیریوں کے منشا کے مطابق حل کیا جائے۔اُسے اِس معاملے کو ایسے نہیں دیکھنا چاہیے کہ یہ ہمارااور بھارت کا سرحدی تنازع ہے جسے دو ملکوں کو آپس میں طے کرناہے۔ بندربانٹ کا یہ اصول کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور اِس میں فیصلہ کن حیثیت نہ بھارت کو حاصل ہے، نہ پاکستان کو ،نہ مہاراجہ ہری سنگھ کے کسی فیصلے اور نہ الحاق کی کسی دستاویز کو۔ فیصلہ کن حیثیت کشمیر کے لوگوں کو حاصل ہے۔ وہ اگر بھارت سے الحاق قائم رکھنا چاہتے ہیں تو پاکستان کو اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے ، وہ اگر پاکستان سے الحاق کرنا چاہتے ہیں تو اُسے بھارت کو قبول کرناچاہیے اور وہ اگر اپنی الگ ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں تو بھارت اور پاکستان، دونوں کو اِسے تسلیم کرنا چاہیے۔ اِس معاملے میں پاک بھارت مذاکرات صرف اِس ایک نکتے پر ہونے چاہییں کہ کشمیریوں کی راے حاصل کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے ۔ 
 اب جہاں تک اہل کشمیر کا تعلق ہے تو اُن کا یہ فطری حق ہے کہ اُن کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اُن کی خواہش کے مطابق کیا جائے۔ تقسیم ہند کے موقع پر اُنھیں یہ حق ملنا چاہیے تھا ، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ جب ایسا نہیں ہو سکا تو اُن کے سامنے دو ہی راستے تھے: ایک یہ کہ وہ حالات کے جبر کو قبول کرتے ہوئے بھارت کے قومی دھارے میں شامل ہو جائیں اور دوسرے یہ کہ حق خودارادی کے حصول کے لیے جدوجہد کا آغاز کریں۔ اِن دونوں راستوں کے اپنے اپنے تقاضے، اپنی اپنی مشکلات اور اپنے اپنے ثمرات تھے۔ کشمیریوں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور آج تک اُسی پر گام زن ہیں ۔ ستر سال کی مسلسل جدوجہد کے باوجود چونکہ ابھی تک منزل کے آثار واضح نہیں ہوئے، اِس لیے آج بھی اُن کے سامنے یہی دو راستے ہیں۔ اِن میں سے اُنھیں وہی راستہ اختیار کرنا چاہیے جو اُن کے قومی مفاد کے عین مطابق ہو۔ اگر اُن کی ترجیح پہلا راستہ ہے تو پھر اُنھیں الحاق کو مثبت طور پر قبول کرتے ہوئے بھارت کے قومی وجود کا اُسی طرح حصہ بن جانا چاہیے جس طرح سکھ، تامل یا بعض دوسری قوموں کو بننا پڑا ہے۔ اگر وہ یہ راستہ اختیار کرتے ہیں تو اُنھیں ساری توجہ اپنی آیندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت اور معاشی خوش حالی کی طرف مبذول کر دینی چاہیے اور اپنی جدوجہد کو اُن حقوق کے حصول تک محدود کر لینا چاہیے جو بھارت کے آئین اور قانون کی رو سے اُنھیں حاصل ہو سکتے ہیں۔ لیکن اِس کے برعکس اگر وہ حق خود ارادی کی جدوجہد کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر اُنھیں ایک دفعہ رک کر اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہیے اور اُس کی روشنی میں اپنے لائحۂ عمل کو ازسرنو ترتیب دینا چاہیے۔ اِس ضمن میں تین باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں:
 پہلی یہ کہ وہ اپنی ایک قیادت پیدا کریں اورتمام گروہی اختلافات کو ختم کر کے ایک نمایندہ سیاسی جماعت کی صورت میں اپنے آپ کو منظم کریں۔ جب وہ ایک قیادت کے تحت مجتمع ہوں گے تو اُن کی صفوں میں اتحاد قائم ہو گا اور وہ ایک آواز ہو کر زیادہ موثر طریقے سے دنیا کے سامنے اپنا موقف پیش کر سکیں گے۔ اِس بات کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ اُنھیں اپنا قائد اعظم پیدا کرناچاہیے اور وہی لائحۂ عمل اختیار کرنا چاہیے جو محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ نے اختیار کیا تھا۔ اِس کے بعد کامیابی کے امکانات بہت روشن ہو سکتے ہیں۔
 دوسری بات یہ ہے کہ وہ حق خود ارادی کی بنا پر پرامن جہدوجہد کا طریقہ اختیار کریں۔ قوموں کی تقدیر کے فیصلے اشتعال انگیزی سے نہیں، پرامن سیاسی جدوجہد سے ہوتے ہیں۔ اُنھیں عدم تشدد کی بنا پر خالص سیاسی جدوجہد تک محدود رہنا چاہیے۔ اپنی جدوجہد کو نہ مذہبی رنگ دینا چاہیے اور نہ انتہا پسندانہ طریقے اختیار کرنے چاہییں۔ وہ دنیا کے ہر فورم پر جائیں اور اقوام عالم کی اخلاقی حمایت حاصل کریں۔ اپنی جنت نظیر دھرتی کو امن کا ایسا گہوارہ بنائیں کہ دنیا بھر کے سیاح اُس کا رخ کریں اور کشمیری قوم کی حمایت کے جذبے سے سرشار ہو کر واپس لوٹیں۔ وہ اگریہ طریقہ اختیار کرتے ہیں تو بہت جلد دنیا کی اکثریت ان کے ساتھ آ کر کھڑی ہو جائے گی اور خود بھارت کے اندر اُن کے ہم نوا پیدا ہو جائیں گے اور بالآخر، اگر اللہ نے چاہا تو اُن کی جدوجہد نتیجہ خیز ہو گی۔ 
 تیسری بات یہ ہے کہ اُنھیں اپنی تمام جدوجہد کو صرف ایک مطالبے پر مرتکز کر دینا چاہیے اور وہ ہے استصواب راے۔ دنیا کچھ بھی کہے ، بھارت جو بھی ہنگامہ کرے اور پاکستان جیسی بھی پیش کش کرے، اُنھیں اپنے اِس مطالبے سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔

____________

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت فروری 2017
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Mar 05, 2017
2900 View