ghamidi

روداد سفر

میں اسکول میں پڑھتا تھا، لیکن والد اِس پر مطمئن نہ تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ اِس کے ساتھ عربی، فارسی اور سنسکرت بھی سیکھوں۔ اِس کی کوئی صورت سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ اِسی دوران میں اُنھوں نے پاک پتن کے نواح میں واقع میاں محمد حسین بودلہ کی جاگیر پر ملازمت کرلی۔ دو تین مہینے وہاں کام کرنے کے بعد وہ مطمئن ہوگئے تو والدہ نے بھی اُن کے ساتھ میاں صاحب کے گاؤں نانگپال منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ گاؤں سمہ سٹہ جانے والی ریلوے لائن کے اسٹیشن پکاسدھار سے دو ڈھائی میل کے فاصلے پر تھا۔ مجھے پاک پتن کے ایم۔ سی پرائمری اسکول سے اٹھا کر پکاسدھار کے اسکول میں داخل کر دیا گیا۔ یہ ایک ہی کمرے کا اسکول تھا جس میں ٹاٹ بھی نہیں تھے۔ ہم ریلوے لائن کے ساتھ بیابان کی جھاڑیوں سے شاخیں توڑتے، اُن کے پتوں سے فرش کی صفائی کرتے اور اُنھی پر بیٹھ جاتے تھے۔ گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ والد اُس میں نماز کے لیے جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے تھے۔ مولوی نور احمد صاحب اُس مسجد کے امام اور خطیب تھے۔ اب جو کچھ یاد ہے، اُس سے یہی خیال ہوتا ہے کہ اُن کا تعلق غالباً دیوبندی مسلک سے تھا۔ والد نے اُن سے میری تعلیم کی بات کی تو اُنھوں نے فرمایا: عربی، فارسی تو اِسے میں پڑھا دوں گا۔ والد بے حد خوش ہوئے۔ پھر والدہ کے مشورے سے فیصلہ کیا گیا کہ اسکول سے آنے کے بعد میں تھوڑی دیر کے لیے آرام کروں گا۔ اِس کے بعد عصر کی نماز کے لیے مسجد جاؤں گا اور مغرب تک مولوی صاحب مجھے فارسی، عربی پڑھائیں گے۔

ہم نانگپال گئے تھے تو میں تیسری جماعت میں تھا۔ پانچویں تک مولوی نوراحمد صاحب سے پڑھنے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اُنھوں نے مجھے ’’شرح جامی‘‘ تک عربی اور ’’پندنامہ‘‘ شیخ عطار تک فارسی پڑھائی۔ پانچویں جماعت کے امتحانات ہونے کو تھے کہ والد کسی بات پر میاں صاحب سے ناراض ہوئے اور ملازمت چھوڑ کرواپس پاک پتن آگئے۔ مجھے بھی آنا پڑا، لہٰذا مولوی صاحب سے میری تعلیم بھی اِس کے ساتھ ہی منقطع ہو گئی۔ تاہم شوق ختم نہیں ہوا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ’شوق در ہر دل کہ باشد رہبرے درکار نیست‘، میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود ہی کسی استاد تک پہنچ جاتا اور اُس کی رہنمائی میں درس نظامی کی کتابیں پڑھتا رہتا تھا۔ نویں جماعت تک میں نے فنون کی تمام کتابیں ختم کر لیں۔ اب دسویں کا امتحان درپیش تھا، اِس لیے پوری توجہ اُس کی طرف مبذول ہو گئی اور عربی تعلیم کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر ٹوٹ گیا۔

پانچویں جماعت کا امتحان پاس کرلینے کے بعد آگے کی تعلیم کے لیے میں اسلامیہ ہائی اسکول میں آگیا تھا۔ یہاں غالباً چھٹی یا ساتویں کے زمانے میں نصیرالدین صاحب ہمایوں سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ ہمیں تاریخ پڑھاتے تھے۔ یہ اِس لحاظ سے بڑی اہم ملاقات تھی کہ پہلی مرتبہ اُنھی کی وساطت سے مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کے نام اور کام سے میرا تعارف ہوا۔ مولانا کی تمام کتابیں میں نے اُن سے لے کر پڑھیں۔ یہ علم و عمل کی ایک نئی دنیا تھی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا سالانہ اجتماع اُنھی دنوں داؤد گارڈن، داروغہ والا میں منعقد ہوا۔ ہم چند دوست بھی اسلامیہ ہائی اسکول سے ہمایوں صاحب کے ساتھ اِس اجتماع میں شرکت کے لیے لاہور آئے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کو میں نے پہلی مرتبہ اِسی اجتماع کے موقع پر دیکھا۔ کیا دل نواز شخصیت تھی۔ لگتا تھا کہ اِس کی صورت گری میں حسن فطرت کی ہر چیز کام آگئی ہے۔ بعد میں اُن سے ملنے اور بہت قریب رہ کر اُن کو دیکھنے کے مواقع حاصل ہوئے۔ علم و عمل، حسن اخلاق، دانش و بصیرت اور جرأت و عزیمت کے لحاظ سے جن شخصیتوں کے نام اُن کے ساتھ لے سکتے ہیں، وہ انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں۔ یہ صرف میرا تاثر نہیں ہے۔ اُنھیں دیکھنے، ملنے، اُن سے ہم کلام ہونے اور اُن کے ساتھ کام کرنے کی سعادت جن لوگوں کو بھی حاصل ہوئی ہے، وہ اِس کی گواہی دیں گے:

نہ من براں گل عارض غزل سرایم و بس
کہ عندلیب تو از ہر طرف ہزارانند

دسویں کا سال شروع ہوا تو فلسفہ، تصوف، ادب اور تاریخ کی کتابیں دیکھنے سے میری دل چسپی بہت بڑھ چکی تھی۔ یہ والد اور اُن سے ملنے والوں کی صحبت کا اثر تھا۔ اِن مضامین کی کوئی کتاب مل جاتی تو ختم کیے بغیر چین نہیں آتا تھا۔ اِس کے لیے وقت بھی تھا۔ اسکول کی مصروفیت، البتہ کسی حد تک رکاوٹ بنتی تھی۔ مجھے خیال ہوا کہ اِس سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرنی چاہیے۔ اِسی شوق میں ایک دن اپنے استاد اور اسکول کے صدر مدرس سیدشیر محمد صاحب سے میں نے درخواست کی کہ مجھے اسباق میں حاضری سے مستثنیٰ کر دیا جائے۔ میں پوری یک سوئی کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ مجھے ہاسٹل میں ایک کمرا دے دیں تو دسویں کے نتیجے سے بھی ان شاء اللہ میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔ سید صاحب بڑی غیرمعمولی شخصیت کے استاد تھے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ کیسے مان گئے۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد اُنھوں نے فرمایا: میرے اعتماد کو ٹھیس تو نہیں پہنچاؤ گے؟ میں نے اطمینان دلایا تو اُنھوں نے اگلے ہی دن یہ سہولت فراہم کر دی، بلکہ اِس کے ساتھ ایک مزید عنایت یہ کی کہ اسکول کی لائبریری سے میرے ذوق کی تمام کتابیں بھی اُسی کمرے میں منتقل کر لینے کی اجازت دے دی۔ یہ گوشۂ چمن تو نہیں تھا، مگر ’فراغتے و کتابے‘ کی ہر صورت میسر ہو گئی تھی۔ دسویں کے امتحانات تک میں اُسی کمرے میں رہا۔ یہ دن یاد آتے ہیں تو سید صاحب بھی ساتھ ہی یاد آتے ہیں۔ میں اُن کا مرقع کھینچنا چاہوں بھی تو نہیں کھینچ سکتا، اِس لیے کہ تشبیہ و تمثیل کے لیے اب اُن جیسے استاد کہاں ملیں گے:

اے تو مجموعۂ خوبی، بچہ نامت خوانم

دسویں کے بعد میں لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخل ہوا۔ فلسفہ اور انگریزی ادب میرے اختیاری مضامین تھے۔ بی۔ اے کے ساتھ آنرز کے لیے بھی میں نے انگریزی ادب ہی کا انتخاب کیا۔ گورنمنٹ کالج اُس زمانے میں علم و ادب کے درخشندہ ستاروں کی کہکشاں بنا ہوا تھا۔ پروفیسر مرزا منور، صابر لودھی، غلام الثقلین نقوی، ملک بشیر الرحمن، پروفیسر سراج، پروفیسر سعید شیخ، پروفیسر بختیار حسین صدیقی اور ڈاکٹر محمد اجمل جیسے علما و ادبا کی صحبتیں طالب علموں کو میسر تھیں۔ پروفیسر اشفاق علی خان کالج کے پرنسپل تھے۔ پڑھنے والوں کے لیے کالج میں ایک بہت اچھی لائبریری تھی۔ پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری اور پنجاب پبلک لائبریری بھی زیادہ دور نہ تھیں۔ اُس زمانے کا لاہور خود ایک جہان علم تھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا ابوالخیر مودودی، مولانا حنیف ندوی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا عطاء اللہ حنیف، ڈاکٹر صوفی ضیاء الحق، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی، پروفیسر علم الدین سالک، پروفیسر یوسف سلیم چشتی، فیض احمد فیض، شورش کاشمیری، حفیظ جالندھری، عابد علی عابد، احسان دانش اور احمد ندیم قاسمی جیسے اساطین علم و ادب زندہ تھے اور آدمی جب چاہے، اُن سے استفادے کے لیے اُن کی خدمت میں حاضر ہو سکتا تھا۔

اِن میں سے بعض بزرگ تدریس کے لیے بھی آمادہ ہو جاتے تھے۔ چنانچہ ڈاکٹر صوفی ضیاء الحق صاحب سے میں نے درخواست کی تو اُنھوں نے ’’مقامات ہمدانی‘‘ اور مولانا عطاء اللہ صاحب حنیف نے ’’دارمی‘‘ کا کچھ حصہ پڑھا دیا۔ مولانا اہل حدیث کے ایک جلیل القدر عالم اور ڈاکٹر صاحب عربی زبان و ادب کے ایک جید عالم اور محقق تھے۔ اُن کے والد مولانا اصغر علی روحی شبلی و فراہی کے استاد اور ’’حماسہ‘‘ اور ’’سبع معلقات‘‘ کے شارح ادیب الہند مولانا فیض الحسن سہارن پوری کے تلمیذ رشید تھے۔ ڈاکٹر صاحب زبان و ادب کی اِسی روایت کے امین تھے۔

میں گورنمنٹ کالج میں کم و بیش پانچ برس رہا۔ میرا معمول تھا کہ صبح گھر سے نکلتا، کالج کے اسباق میں شامل ہوتا، پھر شام تک کسی لائبریری میں بیٹھا رہتا یا لائبریری سے اٹھ کر اِن بزرگوں کی صحبت میں پہنچ جاتا تھا۔ نئی کتابوں کے لیے فیروزسنز اور یونائیٹڈ پبلشرز میں یہ سہولت تھی کہ آدمی جب تک چاہے پڑھتا رہے، دکان کے لوگ بالعموم کوئی مداخلت نہیں کرتے تھے۔ میں اِن دکانوں پر بھی جاتا اور گھنٹوں کتابیں دیکھتا رہتا تھا۔ اُس زمانے میں بعض کتابیں لکھنے کے منصوبے بنائے، کچھ لکھا بھی، لیکن یہ زیادہ تر منصوبے ہی رہے۔ شعر کہنے کا رجحان بچپن سے تھا۔ وہ اُس زمانے میں بھی کہے اور اُن میں سے کچھ فیروزسنز کے انگریزی ماہنامہ ’’پاکستان ریویو‘‘ کے ۱۹۶۸ء،۱۹۶۹ء کے شماروں اور بعض دوسرے مجلوں میں شائع بھی ہو گئے، مگر زیادہ توجہ پڑھنے کی طرف رہی۔ لہٰذا کالج کے شب وروز اِسی عیش میں گزر گئے:

اوقات ہماں بود کہ با یار بسررفت
باقی ہمہ بے حاصلی و بے خردی بود

آنرز حصۂ اول کا امتحان پاس کر لینے کے بعد میں اُس کے آخری سال میں تھا کہ امام حمید الدین فراہی کی بعض کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ علم و نظر اور فہم و بصیرت کی ایک حیرت انگیز دنیا تھی جواِن کتابوں کے اوراق پلٹتے ہی سامنے آگئی۔ اِن میں سے کسی کتاب کے دیباچے میں امام کے تلمیذ رشید مولانا امین احسن اصلاحی کا ذکر بھی تھا۔ اُس کے الفاظ غالباً یہ تھے: ’ثاني اثنین إذ ہما یتأدبان بآداب الإمام الفراہي‘۔ میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ مولانا سے ملاقات کی جائے۔ ’’اسلامی جمعیت‘‘ کے ایک دوست نے بتایا کہ وہ لاہور سے باہر کسی گاؤں میں مقیم ہیں۔ اتنا معلوم تھا کہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا بھی اُن سے کچھ تعلق ہے۔ ڈاکٹر صاحب اُس زمانے میں کرشن نگر کے کسی محلے میں مطب کرتے اور وہیں رہتے تھے۔ میں لائبریری سے اٹھا اور پوچھتے پوچھتے اُن کے گھر پہنچ گیا۔ ڈاکٹر صاحب مطب کے پچھلے کمرے میں اپنے احباب سے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے مولانا کے بارے میں پوچھا تو اُنھوں نے بتایا کہ حسن اتفاق سے وہ آج ہی اپنے گاؤں رحمن آباد سے آئے ہیں اور اِس وقت اپنے داماد نعمان علی صاحب کے ہاں واپڈا کالونی میں ٹھیرے ہوئے ہیں۔ میرے پاس سائیکل تھی۔ میں نے پتا سمجھا اور واپڈا کالونی کے لیے روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچا تو مغرب کا وقت ہورہا تھا۔ راہ چلتے ایک صاحب سے رہنمائی چاہی تو اُنھوں نے سامنے کی طرف اشارہ کیا۔ مولانا نماز کے لیے باہر نکل رہے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا۔ یہ استاذ امام سے میری پہلی ملاقات تھی۔ مولانا غالباً دو ہفتے لاہور میں رہے۔ میں روزانہ ملاقات کے لیے حاضر ہوتا اور ایک نئی دنیا کی سیر دیکھ کر لوٹتا۔ استاذ امام کے ساتھ یہی ملاقاتیں ہیں جن سے پہلی مرتبہ شرح صدر ہوا کہ دین محض مان لینے کی چیز نہیں ہے، اُسے سمجھا اور سمجھایا بھی جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت واضح ہوئی کہ قرآن ایک قول فیصل ہے، دین و شریعت کی ہر چیز کے لیے میزان ہے، پورے عالم کے لیے خدا کی حجت ہے۔ اِس کی روشنی میں ہم حدیث و فقہ، فلسفہ و تصوف اور تاریخ و سیر، ہر چیز کا محاکمہ کر سکتے ہیں۔

یہ میرے لیے ایک نئے قرآن کی دریافت تھی۔ میں نے عرض کیا کہ میں آپ کے طریقے پر قرآن کا طالب علم بننا چاہتا ہوں۔ اپنی تعلیم کا کچھ پس منظر بتا کر پوچھا کہ اِس کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا؟ مولانا نے مختلف علوم و فنون کی امہات کتب کی ایک لمبی فہرست بتائی جنھیں پڑھنے، سمجھنے اور دل و دماغ میں اتارنے کے لیے برسوں کی محنت چاہیے تھی۔ مولانا نے فرمایا: اِس طریقے سے پڑھنا چاہتے ہو تو لیڈری کے خیالات ذہن سے نکال کر علم و نظر اور فکر و تدبر کے لیے گوشہ گیر ہونا پڑے گا۔ یہ فیصلہ کرو کہ تمھارا سایہ بھی ساتھ نہ دے تو حق پر قائم رہو گے۔ ہمارے مدرسۂ علمی میں کوئی شخص اِس عزم و ارادہ کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا۔

یہ آخری دن تھا۔ اِس سے اگلے روز مولانا گاؤں واپس جا رہے تھے۔ میں نے دل و دماغ کا جائزہ لیا، نتائج و عواقب کا اندازہ کیا اور اُسی روز فیصلہ کر لیا کہ کالج کو الوداع کہہ کر میں کل ہی مولانا کے مدرسۂ علمی میں داخل ہو جاؤں گا اور اِس کے لیے جیسا علم چاہیے، اُسے حاصل کرنے میں اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہ رکھوں گا۔ میری طالب علمی کا دوسرا دور اِسی سے شروع ہوا۔ یہ ۱۹۷۳ء کی ایک شام تھی۔ اِس کے بعد یہ سلسلہ کم و بیش دس سال تک جاری رہا۔ اِس دوران میں مولانا نے خود بھی پڑھایا۔ سورۂ زخرف سے آخر تک قرآن مجید، موطا امام مالک، قرآن و حدیث پر تدبر کے اصول و مبادی اور فلسفۂ جدید کے بعض مباحث اُن کے طریقے پر اُنھی سے پڑھے۔ مولانا فرماتے تھے کہ پڑھے کم لکھے زیادہ لوگ اِس زمانے میں بہت ہو گئے ہیں۔ اُن کا ارشاد تھا کہ قلم اُس وقت اٹھائیے، جب کوئی نئی حقیقت سامنے آئے۔ چنانچہ طالب علمی کے اِس دور میں لکھنے کی ہمت کم ہی ہوئی۔ میں شعر کہتا تھا، نثر لکھنے سے مجھے کچھ زیادہ دل چسپی بھی نہیں تھی۔ تاہم چند چیزیں اردو اور عربی زبان میں قلم سے نکلیں، لیکن وہ ایسی ہی تھیں، جیسی کسی نوآموز لکھنے والے کی ہو سکتی ہیں۔ ۱۹۸۳ء میں تعلیم کا یہ مرحلہ ختم ہوا تو میرے معتقدات کی دنیا میں ایسا اضطراب پیدا ہو چکا تھا کہ ہر چیز اپنی جگہ چھوڑتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ فقہ، اصول فقہ، تصوف، علم کلام، سب قرآن میں اپنی بنیادیں تلاش کر رہے تھے۔ دین کی صحیح تعبیر کیا ہے؟ اِس سوال کے جتنے جوابات ابھی تک سامنے تھے، وہ سب اعتراضات کی زد میں تھے۔ میرے تصورات کا قصر منہدم ہو چکا تھا اور نئی تعمیر اب نئے بندوبست کا تقاضا کر رہی تھی۔ اگلے سات سال اِسی بندوبست کی نذر ہو گئے۔ اِس عرصے میں، معلوم نہیں، کتنی وادیاں قطع کیں، کتنے راستے ڈھونڈے، کتنے موڑ مڑے، کتنے پتھر الٹے، اور پاؤں کے آبلوں سے کہاں کہاں کانٹوں کی پیاس بجھائی۔ یہ عجیب سفر تھا۔ ایک کے بعد دوسری منزل گزر رہی تھی اور کچھ معلوم نہ تھا کہ آگے کیا پیش آنے والا ہے۔ فیضی نے غالباً اِسی طرح کی صورت حال میں کہا تھا:

کس نمی گویدم از منزل اول خبرے
صد بیاباں بہ گذشت و دگرے درپیش است

اِس زمانے میں اگر کچھ لکھا بھی تو کسی ضرورت کے تحت۔ بت کدۂ تصورات میں ’تراشیدم، پرستیدم، شکستم‘ کی جو صورت پیدا ہو گئی تھی، اُس میں دوسروں سے کیا کہا جائے؟ یہ دور اِسی طرح گزر گیا۔ یہاں تک کہ ۱۹۹۰ء میں جا کر وہ زمین کہیں ہموار ہوئی، جہاں نئی تعمیر کے لیے نیو ڈالی جائے۔ زندگی کے چالیس سال پورے ہونے کو تھے۔ فکرو خیال میں بڑی حد تک وضوح پیدا ہوچکا تھا اور نقشۂ کار بھی واضح تھا۔ میں نے تصنیف و تالیف کا ایک پروگرام ترتیب دیا اور اِس کے مطابق کام کی ابتدا کر دی۔ پچھلے سترہ سال سے اِسی کے مطابق کام کر رہا ہوں۔ بہت کچھ ہو چکا اور بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال رہی تو یہ بھی ہو جائے گا۔ چند دن پہلے ’’میزان‘‘ پایۂ تکمیل کو پہنچی تو خیال ہوا کہ اِس موقع پر یہ داستان سنا دی جائے۔ اِسی تقریب سے اپنے کام کا نقشہ یہاں بیان کر رہا ہوں۔ یہ کتابیں ہیں جن میں سے کچھ لکھی جا چکی اور کچھ زیر تصنیف ہیں:

۱۔ البیان

قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر ہے۔

۲۔ میزان

اسلام کو میں نے جس طرح سمجھا ہے، یہ اُس کا بیان ہے۔

۳۔ برہان

یہ اُن مباحث کی تنقیح کے لیے خاص ہے، جہاں میرا نقطۂ نظر دوسرے علما سے مختلف ہے۔

۴۔ مقامات

پہلی دو کتابوں کے علاوہ جو کچھ لکھا ہے یا لکھنے کا ارادہ ہے، اُس کے منتخبات اِس کتاب میں جمع کرنا پیش نظر ہے۔

۵۔الاسلام

’’میزان‘‘ کا خلاصہ ہے۔

۶۔ علم النبی

۷۔ فقہ النبی

۸۔سیرۃ النبی

یہ تینوں کتابیں احادیث و آثار کی جمع و تدوین اور اُن کے متون کی تنقیح کے لیے ترتیب دینا چاہتا ہوں۔

۹۔ خیال وخامہ

شعر کہتا رہا ہوں، یہ اُن کا مجموعہ ہے۔

’’برہان‘‘، ’’مقامات‘‘ اور ’’خیال و خامہ‘‘ شائع ہو چکی ہیں۔ اِن میں مضامین اور منظومات کا اضافہ، البتہ ہوتا رہتا ہے۔ ’’میزان‘‘، امید ہے کہ اِس سال کے آخر تک شائع ہو جائے گی۔ ’’البیان‘‘ میں سورۂ نساء تک پہنچا ہوں۔ اِس سے فارغ ہو گیا تو باقی عمر ان شاء اللہ حدیث کی خدمت کے لیے وقف کر دوں گا۔ زندگی کی تمنا اگر ہے تو اب اِسی کے لیے ہے۔ ابوالکلام کا تصرف قبول کر لیا جائے تو زمانی یزدی کا یہ شعر ہر لحاظ سے حسب حال ہے:

حکایت از قد آں یار دل نواز کنیم
بایں فسانہ مگر عمر خود دراز کنیم